فضا معطر، خلا منور، سما ہے مصروفِ کجکلاہی

فضا معطر، خلا منور، سما ہے مصروفِ کجکلاہی

زمیں کے آنچل کی ہر شکن میں سمٹ رہی ہے جہاں پناہی

حجر شجر مست و محوِ نغمہ، بشر بشر وقفِ خوش نگاہی

گھٹا ہے مشغولِ عکس بندی کہ رقص کرتے ہیں مرغ و ماہی

مزاجِ گلبانگِ عقل چونکے، درود کی جلترنگ جاگے

ہوا رگِ جاں کو چھیڑتی ہے، علی ولی کا ملنگ جاگے


وہ پھول مہکے وہ رنگ دہکے طیور چہکے تو مست بہکے

کلی جو چٹکی ہوا کو کھٹکی چمن سے اٹکی کہ شاخ مہکے

حیات لپکی پلک نہ جھپکی ہزار جلووں کے پاس رہ کے

گھٹا سے چھن کر فضا میں تن کر وہ چاند نکلا یہ بات کہہ کے

مجھے نہ روکو کہ بن سنور کر ہزار محشر جگا رہا ہوں

ہے جس کی الفت کا داغ دل میں اسی کی شادی میں جا رہا ہوں


وجود ان کا مرا تعارف‘ یہ میری پہچان ہیں جہاں میں

انہی کے دم سے یہ روشنی ہے یہ صورتِ جان ہیں جہاں میں

انہیں بنا کے میں سرخرو ہوں یہ میرا عرفان ہیں جہاں میں

دلیلِ ایمان پوچھتے ہو یہی تو ایمان ہیں جہاں میں

انہی کی خِلقت سے ہے یہ خلقت نہ جاگتے یہ جہان سوتا

انہی کی خاطر بنائی دنیا جو یہ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا


انہی کی چشمِ کرم سے بگڑے ہوئے مقدر سنبھل گئے ہیں

کبھی میں ان سے بہل گیا ہوں کبھی یہ مجھ سے بہل گئے ہیں

مری رضا کے عظیم تاجر مرے ارادے بدل گئے ہیں

فلک پہ اک تھے زمیں پہ آکر یہ پانچ بحروں میں ڈھل گئے ہیں

انہی میں دو بحر مل رہے ہیں تمام عالم ہے شاد میرا

کہ ان میں اک لختِ مصطفیٰ ہے تو دوسرا خانہ زاد میرا


زمینِ بطحا مثالِ جنت عروسِ عالم بنی ہوئی ہے

اصول دیں کے ستوں ہیں محکم حیا کی چادر تنی ہوئی ہے

ہر ایک ذرّے کی آسمانوں سے آج کی شب ٹھنی ہوئی ہے

کرن کرن اک حریرِ عصمت کے آنچلوں میں چھنی ہوئی ہے

لدی ہوئی ہے حنا کی کلیوں سے آج طوبیٰ کی ڈالی ڈالی

علی کی خاطر نبیؐ کے در پر ہے آج توحید خود سوالی


ادھر فلک پر حریم وحدت میں نور کا سائباں سجا ہے

سبھی فرشتے طلب ہوئے ہیں ہر ایک نوری جھکا کھڑا ہے

ادھر سے شمس و نجوم و سیارگاں کا بھی قافلہ چلا ہے

سنو سنو کون نوریوں کو خدا کا پیغام دے رہا ہے

وہ کون خوش بخت ہے کہ اس دم ہماری رحمت کو آزمائے

علی کی شادی کا نامہ بر بن کے جو درِ مصطفیٰ پہ جائے


یہ حکم سن کر بڑھے فرشتے کہ اپنی قسمت کو آزمائیں

سروں پہ دستارِ زہد رکھی درست ہونے لگیں قبائیں

حضورِؐ وحدت تھرک رہی ہیں گلے میں سہمی ہوئی صدائیں

ادھر سے جبریل اس طرف شمس لے کے آئے کئی دعائیں

تو کون؟ جبریل، اک طرف ہو نئے پیامی کو بھیجنا ہے

جناب سورج ہوں، اک طرف ہو تجھے سلامی کو بھیجنا ہے


صدا یہ آئی کہاں ہے زہرہ کہ آج زہرؑا کے در پہ جائے

ہمارا پیغام انتہائی ادب سے جا کے انہیں سنائے

نہ دستکیں دے نہ آہٹیں ہوں نہ بے ادب ہو نہ مسکرائے

بس اس طرح جائے جیسے مومن خود اپنے خالق کے در پہ آئے

نبیؐ کی چوکھٹ پہ بوسہ دے کر کہے کہ اب یہ اصول ہوگا

جو سر سے پاؤں تلک خدا جیسا ہو وہ زوجِ بتول ہوگا


فلک سے زہرہ اتر رہا ہے کہ جیسے الہام دل میں آئے

کہ جیسے اک بے ریا نمازی بڑی عقیدت سے حج کو جائے

بدن پہ اوڑھے قبائے عصمت لبوں پہ صل علیٰ سجائے

وہ جارہا ہے کہ جیسے قاری غلافِ قرآں پہ سر جھکائے

نشہ مودت کی مے کا زہرہ کے دل میں شاید سما گیا ہے

وہ جارہا ہے وہ آرہا ہے درود پڑھ لو وہ آگیا ہے


یہ انبیاء ہیں یہ اولیا ہیں علی ولی کی برات دیکھو

خضؔر چھڑکتا ہے ہر برائی کے رخ پہ آبِ حیات دیکھو

نشے کے عالم میں جھومتی ہے شعور کی کائنات دیکھو

یہ بزم دیکھو یہ لوگ دیکھو یہ رنگ دیکھو یہ رات دیکھو

کئی بہاریں گزر گئی ہیں کھلا نہ ایسا چمن جہاں میں

کہاں خدائی میں ایسا نوشہ کہاں ہے ایسی دلہن جہاں میں


لو ہو چکا عقد مرتضیٰ کا کہو کہ صلے علیٰ مبارک

علی ولی کو نبیؐ کے گھر میں ملا ہے جو مرتبہ مبارک

تمام نبیوں کو آج کی شب ملا ہے مشکل کشا مبارک

امام اپنا ہمیں سلامت نصیریوں کو خدا مبارک

خدا کا دیں بارور ہوا ہے چمن امامت کا کھل اٹھا ہے

جنابِ عمران کو نبوت کی پرورش کا صلہ ملا ہے