گنبدِ آفاق میں روشن ہُوئی شمعِ نجات
لہلہائی زلفِ لیلائے زُموزِ شش جہات
کھل رہا ہے آسماں پر غُرفہء ذات و صفات
اُٹھ رہا ہے بُرقعِ سَلمائے رُوحِ کائنات
زندگی ، علم و فراست کا مزا چکھنے کو ہے
فرش پر افلاک کی عظمت ، قدم رکھنے کو ہے
آسماں نکھرا ، اُبھرتا آرہا ہے آفتاب
اُٹھ رہا ہے رُوئے اَسرار و حقائق سے نقاب
کھل رہی ہے ذہن پر ادراک و عرفاں کی کتاب
کہہ رہی ہے زندگی ، یا لَیتَنِی کُنْتُ تُراب
عارفوں کو مُژدہ، شاہِ عارفاں آنے کو ہے
اے زمیں سجدے میں گِر جا ! آسماں آنے کو ہے
اُس کے آتے ہی نُبوّت کا نشاں کھل جائے گا
عُقدہء دیرینہء رُوحِ جہاں کھل جائے گا
قُفلِ ایوانِ اُمُورِ این و آں کھل جائے گا
گنجِ فِکر و بابِ اَسرارِ نہاں کھل جائے گا
فاش کردے گا رُمُوزِ اندک و بسیار کو
کھول دے گا غُرفہ ہائے ثابت و سیّار کو
لو وہ دمکا مطلعِ صدق و صفا پر آفتاب
آسمانِ عقل و دانائی پہ وہ جھُومے سحاب
لو وہ آیا صاحبِ سیف و قلم گردوں جناب
مرحبا وہ آئے بزمِ آب و گِل میں بُو تُراب
لو، وہ لوحِ دَہر پر نقشِ جَلی پیدا ہُوا
نوعِ انساں کو مبارَک ہو ! علی پیدا ہُوا
آپ کے آتے ہی بدلا ، زندگی کا ہر نظام
ہو گیا دُنیا میں لُطفِ خاص سے ، فیضانِ عام
پیشوائی کا کیا کعبہ نے از خود اہتمام
بادہ صدق و صفا کے آگئے گردش میں جام
عقل کے کانٹے پہ اسرارِ نہاں تُلنے لگے
لیلیء افکار کے بندِ قبا کھُلنے لگے
ٹھیکروں میں تابشِ تاجِ کیانی آگئی
پھر زمیں میں آب و تابِ آسمانی آگئی
از سرِ نَو خونِ ہستی میں روانی آگئی
مِصر پھر جھُوما ، زُلَیخا پر جوانی آگئی
لیلیء آفاق پر برنائیاں چھانے لگیں
شاہدِ اطلاق کو انگڑائیاں آنے لگیں
فکر کی کلیوں کو ذہنوں میں چٹکنا آگیا
عندلیبِ مُہر بر لب کو ، چہکنا آگیا
بزمِ ہُو میں جامِ وحدت کو کھنکنا آگیا
شاخ کو ہِلنا ، صنوبر کو لچکنا آگیا
لیلیء حُسنِ تکلّم کو عَماری مِل گئی
خِسروِ معنیٰ کو لفظوں کی سواری مِل گئی
کاکُلِ لیلائے فطرت کو سنورنا آگیا
شانہء خوباں پہ زلفوں کو بِکھرنا آگیا
علم کے لہجے کو رُوحوں میں اُترنا آگیا
نُطق کو الفاظ کی صورت اُبھرنا آگیا
چُومنے ہفت آسماں پائے زمیں آنے لگے
تحفہ یزداں لیے روحُ الامیںؑ آنے لگے
بِنتِ جَودت کو قبا کے بند کسنا آگیا
ابرِ نیساں کو گُلستاں پر برسنا آگیا
دشت گُلشن بن گئے، شہروں کو بَسنا آگیا
پا بہ گِل نخلِ تمنّا کو اُکَسنا آگیا
عرش کی تنویر سے معمور فرشِ خاک ہے
آشنا حُسنِ تمدّن سے، خس و خاشاک ہے
خیمہء دانشوری میں عُود سُلگایا گیا
زمزموں کا ، موتیوں کا، ابر برسایا گیا
شعر و نغمہ کو حسیں آہنگ پر لایا گیا
حُور کو وجد آئے جس پر راگ وہ گایا گیا
نو عروسِ ذہن کو رنگِ حنا سَجنے لگا
زندگی جھُومی کڑے سے جب چھَڑا بجنے لگا
جنّتِ ادراکِ انسانی کے دَر کھولے گئے
عقل کی میزاں پہ انوارِ حِکم تولے گئے
فرشِ دانائی پہ حکمت کے گُہَر رولے گئے
دیدہء فطرت میں رنگ افکار کے گھولے گئے
ضربتِ حق سے ، ضلالت کا مَنارہ گِر گیا
شیطَنَت کی آگ پر دَم بھر میں پانی پھِر گیا
آگہی کے بام پر اُودی گھٹا چھانے لگی
زُلف علم و فکر کے شانے پہ لہرانے لگی
شَہپرِ جبریلؑ کی مہکی ہَوا آنے لگی
لو، کمر زُہرہ کی لچکی، مُشتری گانے لگی
زمزمے صحنِ ہُنرمندی پہ برسائے گئے
مُرکیوں کو موتیوں کے ہار پہنائے گئے
کشتیء دریائے دانائی کو لنگر مِل گیا
علم کی دیوی کو آشاؤں کا زیور مِل گیا
ہاتھ کو کنگن مِلا ، ماتھے کو جھُومر مِل گیا
موجہء گفتار کو اندازِ کوثر مِل گیا
تیرگی میں دولتِ بیدار پیدا ہوگئی
علم کی پازیب میں جھنکار پیدا ہو گئی
نوعِ انسانی کو اندازِ تکلُّم آگیا
وہ تکلُّم ، جس سے باتوں میں تحکُّم آگیا
وہ تحکُّم ، جس سے لہجوں میں تر نُّم آگیا
وہ ترنُّم ، جس سے موجوں میں تلاطُم آگیا
وہ تلاطُم ، جس سے پیغامِ صبا آنے لگا
وہ صبا، جس میں پرِ جبریلؑ لہرانے لگا
فطرتِ ہر شَے میں مولائی مہک پیدا ہُوئی
پھُول کے لہجے میں بھنورے کی بھِنک پیدا ہُوئی
کونپلوں میں بُو ، ہَواؤں میں سنگ پیدا ہُوئی
بادلوں میں گُونج، گردُوں پر دھنک پیدا ہُوئی
زُلفِ ایماں ، شانہء ہستی پہ لہرانے لگی
زندگی ایقان و آگاہی پہ اِٹھلانے لگی
نا خدائے کشتیء جُود و کرم پیدا ہُوا
نازشِ توقیرِ اربابِ ہِمم پیدا ہُوا
خِسروِ اقلیمِ قرطاس وقلم پیدا ہُوا
پاسبانِ عِزّ و ناموسِ حرم پیدا ہُوا
گُلشنِ اطلاق سے بادِ بہاری آگئی
جُزو کے میدان میں ، کُل کی سواری آگئی
خاتمِ ناموسِ حکمت کا نگیں پیدا ہُوا
جانشینِ انبیاء و مُرسَلیں پیدا ہُوا
قاسِم عرفان و ایمان و یقیں پیدا ہُوا
افتخارِ اوّلین و آخریں پیدا ہُوا
اپنی رُو میں سینکڑوں دُر ہائے جاں رولے ہُوئے
صبح حاضر ہوگئی گھُونگٹ کے پَٹ کھولے ہُوئے
اشجعِ عالَم ، خطیبِ نکتہ ور پیدا ہُوا
شارحِ علمِ نبیؐ ، صاحب نظر پیدا ہُوا
بحرِ عرفانِ الہٰی کا گُہرَ پیدا ہُوا
مفتیِ دانا، فقیہِ معتبر پیدا ہُوا
بربطِ صوت و صدا میں زیرو بم پیدا ہُوئے
پھر نگارِ علم کی زُلفوں میں خَم پیدا ہُوئے
آسمانِ حق پہ بجلی کی چمک پیدا ہُوئی
دل میں انساں کے ،صداقت کی دھمک پیدا ہُوئی
جانبِ خورشید ذرّوں میں ہُمک پیدا ہُوئی
چہرہء نَہجُ البلاغت پر دَمک پیدا ہُوئی
زندگی پیمانہء آسرار کو بھرتی ہُوئی
خیمہء حکمت میں در آئی ،نِرّت کرتی ہُوئی
ابرِ حکمت بن کے کشتِ جَہل پر چھاتا ہُوا
ہر طرف بڑھتا ہُمکتا اور لہراتا ہُوا
پھُولتا، پھلتا، مہکتا، پھُول برساتا ہُوا
گُونجتا، گِھرتا، گرجتا، جھُومتا، گاتا ہُوا
آگیا رُوحُ الامینِؐ علِم پَر تولے ہُوئے
بُت کدوں کو توڑتا، کعبےکا دَر کھولے ہُوئے
رُوحِ پیغمبرؐ کی تھی ذاتِ علی آئینہ دار
وہ علی، جس سے ہے گُلزارِ نبوّت پُر بہار
عِلم کا در ملکِ قرطاس و قلم کا شہریا ر
عسکریّت کا پیمبر ، عِلم کا پروردگار
جس کے ذوقِ جُود پر ، فضل و عطا کو ناز ہے
جس کے اندازِ شجاعت پر، خدا کو ناز ہے
رن میں یہ صورت کہ جیسے غیظ میں شیرِ ژیاں
تیغ در دست و رَجَز خواں ، ضرب اُسکی بے اماں
آسماں گیر و زمیں کوب و عَدُو سوز و دواں
شعلہ ریز و برق بار و شب سوار و صبح راں
توسنِ چالاک سے فرشِ زمیں کو رَوندتا
برق کے مانند لہراتا ، لپکتا ، کَوندتا
وہ علی ، مشہور ہے جس کا یہ قول مُستطاب
"یا فَتیٰ لَا تُبطِلِ الَاوقَاتَ فِیْ عَہدِ الشَّباب"
گوہرِ خود آگہی ا ز بحرِ عرفانش بیاب
اِجْتَبِبْ مَا یُوْفِعُ التَّشکِیْکَ فِیْ اَمْرِ الصَّوَاب
آدمیّت کا جہاں میں بول بالا کر دیا
بندہ ناچیز کو ادنیٰ سے اعلیٰ کر دیا
مسند آرائے سریرِ معرفت، صِہرِ رسوؐل
والدِ سبطین و جانِ اولیا، زوجِ بتول
جعفرِ طیّار کا بازو، ابُو طالب کا پھُول
سب سے پہلے جس نے پچپن میں کیا ایماں قبول
ڈھونڈلی جس نے حقیقت اُس کے قبل و قال کی
دھو گیا ہے وہ، سیاہی نامہ اعمال کی
اے شکوہِ نہ سَپِہر! اے عظمت ِ لوح و قلم
دستگیرِ بے کساں، دارائے گیہانِ کرم
مقتدٰی ، نجمُ الھدٰی، شیرِ خدا ، شمسُ الظُّلَم
منبعِ بذل و سخا، تنویرِ عرفان و حِکَم
سنگ پر ڈالی نظر، لعلِ بدخشاں کر دیا
تُو نے ظلمت میں قدم رکھّا، چراغاں کردیا
آشکارا تجھ پہ کی ، اللہ نے ہر ایک شَے
نام سے تیرے دہلتا ہے دلِ دارا و کَے
حوضِ کوثر کی چھلکتی ہے تِرے ساغر سے مَے
فاتحِ رُوم و سمرقند و تتار و شام و رَے
کون ٹھہرے گا ، امامُ الاولیا کے سامنے
با ادب اہلِ صفا ہیں ، مُرتضٰے کے سامنے
مدّتوں روتی ہے چشمِ حسرتِ اہلِ چمن
سالہا رہتے ہیں گریاں ، دیدہ چرخِ کُہَن
پھر نظر آتا ہے ایسا ایک نخلِ گُل بدن
"بایزید اندر خراساں ، یا اُویس اندر قرن "
زندگی رہتی ہے برسوں ، غوطہ زن در خاک و خُوں
" تا زبزمِ عشق ، یک دانائے راز آید بُروں "
اے خداوندانِ دولت! خِسروانِ کج کلاہ
تا بہ کے یہ آرزوئے طُمطراق و حُبِّ جاہ
کردیا ہے تم کو دُنیا کی محبّت نے تباہ
دُشمنِ دینِ مُبیں ہو، کفر کے ہو خیر خواہ
کعبہ ہے ایوانِ حکمت، قصرِ دولت دَیر ہے
دانش و دینار میں باہم ازل سے بَیر ہے
جَہل سے کب تک اُٹھاؤ گے طبیعت کا خمیر
تابکَے طینت کو رکھّو گے ضلالت کا اسیر
تابکَے زندہ رہو گے تم جہاں میں بے ضمیر
حشر تک رہنا ہے کیا دنیا کی نظروں میں حقیر؟
تابکَے دستار اپنوں کی اُچھالی جائے گی
اپنی عزّت غیر کی جھولی میں ڈالی جائے گی
ہم ہیں اہلِ فن ، ہمیں کوئی مٹا سکتا نہیں
کوئی اِن اُونچے مَناروں کو گرا سکتا نہیں
کوئی ہم اہلِ خرد کے سَر جھُکا سکتا نہیں
کوئی دانش کے چراغوں کو بُجھا سکتا نہیں
سرنگوں ہے خِسروی اہلِ حِکَم کے سامنے
گردنِ شمشیر جھُکتی ہے ، قلم کے سامنے
ہم ہیں رندانِ حق آگاہ شرافت آشنا
طبعِ عالی سے ہماری ، دُور ہے حرص و ہَوا
ہے صراطِ مُستقیم اپنے لیے راہِ خدا
حشر برحق ، شافعِ محشر محمد مصطفےٰؐ
ہے تہِ دل سے نصیؔر آلِ محمدؐ پر نثار
لَا فَتٰی اِلَّا عَلیِ ، لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالفِقَار