اک دن بڑے غرور سے کہنے لگی زمیں
آیا مرے نصیب میں پرچم حسینؑ کا
مہتاب نے کہا میرے سینے کے داغ دیکھ
ہوتا ہے آسماں پہ بھی ماتم حسینؑ کا
پھر آسماں نے ہنس کے کہا حیثیت نہ بھول
تو اوجِ عرش و کرسی و لوح و قلم نہیں
جب سے جبینِ سبطِ نبی مجھ پہ خم ہوئی
اس دن سے میں بھی عرشِ معلیٰ سے کم نہیں
کہنے لگا فلک کہ ذرا دیکھ اے زمیں
میری بلندیوں کی تو محتاج ہو گئی
صرف ایک شب کو آئے تھے اس سمت مصطفیٰ
وہ شب جہان میں شبِ معراج ہوگئی
چھیڑا ہے تذکرہ شبِ معراج کا تو سن
میرا خیال ہے کہ تیری بھول بڑھ گئی
نعلینِ مصطفیٰ کی قسم، منصفی تو کر
تجھ سے تو مرتبے میں میری دھول بڑھ گئی
تو جن کے فیض سے ہے منور وہ نور زاد
سارے ازل کے دن سے مری اپنی حد میں ہیں
پہلے تو میں خلا کا اڑاتی رہی مذاق
شمس و قمر بھی اب مرے بیٹوں کی زد میں ہیں
بیٹوں کی تربیت پہ بہت ناز بھی نہ کر
کچھ ان میں ہیں سخی، کئی کنجوس بھی تو ہیں
کہنے لگی زمیں کہ ستاروں کو بھی تو دیکھ
کچھ ان میں نیک ہیں کئی منحوس بھی تو ہیں
یہ شہرِ کہکشاں یہ مہ و مہر کے دیار
آ دیکھ تو سہی مرے دامن میں کیا نہیں ؟
کہنے لگی زمیں سرِ تسلیم خم، بجا
سب کچھ ہے تیرے پاس مگر کربلا نہیں
وہ دن بھی تھے کہ جب مری وسعت کے آس پاس
رہتا تھا مرکبِ شہِ کونین یاد کر
اتنی سی بات پر تجھے اتنا غرور ہے
کھیلے ہیں میری خاک پہ حسنین یاد کر
کر یاد تیرے پاس ہی جھولے کے روپ میں
جبریل لے کے آئے عماری حسین کی
تو بھی تو یاد کر کہ زمیں پر بروزِ عید
ختمِ رسل بنے تھے سواری حسین کی
سن اے عدوئے امن و سکوں دشمنِ بشر
تو ایک بوجھ بن گئی نبیوں کی جان پر
عیسیٰ نے ایک عمر سہے ہیں تیرے ستم
آخر سکوں ملا ہے اسے آسمان پر
اے انتظار گاہِ امامِ جہاں نہ چھیڑ
جھوٹی شکن نہ ڈال منور جبین پر
آنے دے میرے آخری وارث کو ایک بار
عیسیٰ کو پھر اترنا پڑے گا زمین پر
کہنے لگا فلک کہ زباں کو لگام دے
پہلے بھی تیری ضد کا ستایا ہوا ہوں میں
ہر سو محیط ہیں میری سرحد کی وسعتیں
تجھ پر ازل کی صبح سے چھایا ہوا ہوں میں
گستاخیاں فضول ہیں میرے حضور میں
اب کیا کہوں کہ تو تو بڑا بد مزاج ہے
تو جن کی خاک تک بھی نہ اڑ کر پہنچ سکے
ان سرحدوں پہ بھی مرے ابا کا راج ہے
آخر فلک نے جھک کے زمیں کو کیا سلام
اللہ رے یہ شعور یہ صورت جہاں کی ہے
کس نے سکھائی ہیں تجھے حاضر جوابیاں
کیا شجرۂ نسب ہے ترا تو کہاں کی ہے
کہنے لگی زمیں کہ فلک جی خطا معاف
اب ٹھیک ہو گئی ہے طبیعت جناب کی
کافی ہے اس قدر ہی مرا شجرۂ نسب
ادنیٰ سی اک کنیز ہوں میں بو تراب کی