جو آب و تا ب پائی شاہ خوباں تیرے دنداں میں

جو آب و تا ب پائی شاہ خوباں تیرے دنداں میں

چمک دیکھی نہ گوہر میں نہ ضو لعل بدخشاں میں


کوئی جانے نہیں دیتا ہے مجھ کو کوئے جاناں میں

وہ دیوانہ ہوں وحشت کے چلی آخر بیاباں میں


دلاور ہے دل پرغم نگاہ ناز کے تونے

ہزاروں تیر کھائے منہ نہ موڑا غم کے میداں میں


فراق جان و دل اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے

گیا ہے دل تو جائے جان بھی مرے کوئے جاناں میں


لگیں مستی میں آکر ڈوبنے گر ان کے متوالے

وہ آئیں ناخدا بن کر جہاز بادہ نوشاں میں


خدا کے فضل سے مداح ہوں میں آل احمد کا

مری کس طرح سے عزت نہ ہو بزم سخنداں میں


خبر مرنے کی سن کر بیدم خستہ کی وہ بولے

کہ دیکھو واقعی کچھ بھی نہیں ہوتا ہے انساں میں