کٹنے والی گردنیں، نام و نشانِ کربلا
پیش لفظِ زندگی، پس ماندگانِ کربلا
بیچنے آئے ہیں خود کو مصطفےٰؐ کے لاڈلے
کتنے بازاروں پہ بھاری ہے دکان کربلا
خون سے بھی لکھّے جاتے ہیں خدا کے فیصلے
خامہ قدرت کے منہ میں ہے زبانِ کربلا
کٹ گیا انسانیت کے باب سے نام یزید
ایک تاریخی گواہی ہے بیانِ کربلا
گرتی لاشوں پر ہی بنیادِ حرم رکھی گئی
گونجتی ہے ساری دنیا میں اذانِ کربلا
میرے اندر بھی رہا کرتی ہے جنگِ خیر و شر
مل ہی جاتی ہے مرے سچ کو امان کربلا
کاش اُس مٹی تلک پہنچا دیا جائے مجھے
میں بھی آنکھوں سے چنوں گا زعفران کربلا
طالبِ علمِ شہادت ہوں مظفر وارثی
زندگی کو بھی ہے درپیش امتحانِ کربلا