خُون کے چھینٹے جو دیکھے وقت کے کِردار پر
زندگی چلتی نظر آئی مُجھے تلوار پر
ذہن کے صحرا میں گہری سوچ کے خیمے لگے
لشکرِ تخئیل کے چاروں طرف پہرے لگے
لوح کا سِینہ ہُوا چھلنی قلم کے تِیر سے
نزع کا عَالَم جھلکتا ہے رگِ تحریر سے
آگ برسی ہے غموں کی زندگی کے کھیت پر
لوٹتے ہیں پھر مِرے جذبات جلتی ریت پر
کرب سے لَو دے اُٹھا شُعلہ مِرے احساس کا
پھُوٹ نِکلا میرے ہونٹوں سے سمندر پیاس کا
چل دیا سُوئے فرات آنکھوں کا مشکیزہ لِیے
لَوٹ آیا راستے سے زخم کی ایذا لِیے
اِک قیامست سی بپا ہے کربلائے ذات میں
لاشہ ء سبطِ نبی ہے آنسوؤں کے ہاتھ میں
اے حُسین ابنِ علی اے طُرّہ ء دستارِ دیں
تیری بُنیادوں پہ ہے ٹھہری ہُوئی دیوارِ دیں
نبصِ قانونِ خُدا دھڑکی تِرے ایثار سے
تُونے باطل کی رگیں کاٹیں لہُو کی دھار سے
عِلم والوں کو شہادت کا سَبق تُو نے دِیا
مر کے بھی زندہ رہے اِنساں ، یہ حق تُو نے دِیا
قلعہ ء اِسلام کا مضبُو ط دروازہ ہے تُو
سُوکھ جائیں وقت کی شاخیں ، ترو تازہ ہے تُو
تیرے گھوڑے کے سمُوں کی خاک مِل جائے اگر
مَیں گلابوں کی طرح چُن لوں سرِ شاخِ نظر