خواجہ جی دل میں مرے کیا گل کھلایا آپ نے

خواجہ جی دل میں مرے کیا گل کھلایا آپ نے

ظلمتوں میں نور کا دیپک جلایا آپ نے


سنّتِ غوث الوریٰ کو آپ نے زندہ رکھا

مکرِ شیطاں سے مریدوں کو بچایا آپ نے


رہنمائی آپ کی ہے باعثِ رحمت ہمیں

راہ حق پر ہم غلاموں کو چلایا آپ نے


آپ نے بخشا تصوف کو کمالِ جاوداں

خانقاہوں کا چلن کس نے پڑھایا آپ نے


جب شہاب الدین غوری جنگ میں نالاں ہوئے

ان کے ہاتھوں فتح کا پرچم تھمایا آپ نے


تا کہ یہ بن جائے ولیوں صوفیوں کی سرزمیں

اس لیے بھارت میں ہی ڈیرا لگایا آپ نے


جب مریدوں نے مصیبت میں پکارا آپ کو

ڈوبتی کشتی کو ساحل سے لگایا آپ نے


آزمائش کے لیے یکجا جو جادوگر ہوئے

کلمہء طیب کا تب جادو جگایا آپ نے


بت پرستی میں جو صدیوں سے رہے تھے مبتلا

ان کو اپنے خلق سے مسلم بنایا آپ نے


تھا جو اک اجڑا ہوا سا شہر ریگستان کا

اس کو اجمیرِ مقدس کہلوایا آپ نے


آپ کے آگے سبھی کے رنگ پھیکے پڑ گئے

ایسا چوکھا رنگ وحدت کا جمایا آپ نے


فیضِ خواجہ سے چلا ہے آج نظمی کا قلم

مجھ کو کچھ لکھنے کے بھی قابل بنایا آپ نے