خواجہ کلیر سے ناطہ ہو گیا
اپنی بخشش کا بہانہ ہو گیا
شکر کے سجدے کئے جاتے ہیں ہم
نام منگتوں میں ہمارا ہو گیا
پڑ گئی جب نظر رحمت آپ کی
جو بھی قطرہ تھا وہ دریا ہو گیا
صابری نسبت ملی جب سے ہمیں
ان کے ہم صابر ہمارا ہو گیا
ان کی چوکھٹ کا تصور خوب ہے
سر کو روکا لاکھ سجدہ ہو گیا
ہو گئی جس پر بھی صابر کی نظر
چاہے وہ ذرہ تھا صحرا ہو گیا
میں ہوا صابر علاؤ الدین کا
میرا پھر سارا زمانہ ہو گیا
یہ عنایت ہے فرید الدین کی
جو علاؤ الدین ہمارا ہو گیا
جب جھکا صابر کے قدموں میں یہ سر
میں بڑے اونچوں سے اونچا ہو گیا
میرا تن من دھن ہے سب صابر کے نام
دل میرا ان کا دیوانہ ہو گیا
خواجگان چشت کا فیضان ہے
میں انہیں کا تھا اُنہی کا ہو گیا
دے مجھے صابر کا صدقہ یا فرید
آپ کے گھر کا میں منگتا ہو گیا
دونوں عالم میں ہوا ممتاز وہ
آپ کا جس پر بھی سایہ ہو گیا
صابری ہوں صابری میں صابری
میں بڑے اعزاز والا ہو گیا
آپ دیں نہ دیں یہ مرضی آپ کی
میں تو حاضر جیسا بھی تھا ہو گیا
پھر نہ بھٹکے گا وہ منزل سے کبھی
آپ کا جس کو سہارا ہو گیا
میں بروں سے بھی برا تھا دوستو
نسبت صابر سے اچھا ہو گیا
مل گئے خواجہ قطب گنج شکر
خواجہ اجمیری بھی اپنا ہو گیا
میں کروں کیوں کر نہ سجدے شکر کے
میں تھا کیا اور کیا سے پھر کیا ہو گیا
بن ہی جائے گی نیازی اپنی بات
گر قبول اپنا قصیدہ ہو گیا