لب پر شہداء کے تذکرے ہیں
لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں
جن پر گزر رہی ہے ‘ ان سے پوچھو
ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں
میدان کا دل دہک رہا ہے
دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں
کرنیں ہیں کہ بڑھ رہے ہیں نیزے
جھونکے ہیں کہ شعلے چل رہے ہیں
پانی نہ ملا تو آنسوؤں سے
چُلّو بچوں کے بھر دیئے ہیں
آثار جوان بھائیوں کے
بہنوں نے زمیں سے چُن لیے ہیں
بیٹوں کے کٹے پھٹے ہوئے جسم
ماؤں نے رِدا میں بھر لیے ہیں
یہ لوگ صدا قتوں کی خاطر
سر دیتے ہیں ‘ جان بیچتے ہیں
میدان سے آرہی ہے آواز
جیسے شبیر بولتے ہیں
جیسے گلشن مہک رہے ہیں
جیسے کہسار گونجتے ہیں
”ہم نے جنہیں سر بلندیاں دیں
سر کاٹتے کیسے لگ رہے ہیں
ہیں خون رگِ نبیؐ کے قطرے
جو ریت میں جذب ہو رہے ہیں
دیکھو اے ساکنانِ عالم
یوں کِشتِ حیات سینچتے ہیں