یاد میں تیری جانِ جاں ہر کوئی اشکبار ہے

یاد میں تیری جانِ جاں ہر کوئی اشکبار ہے

جب سے گئے ہو چھوڑ کر دل میرا بے قرار ہے


غم میں ترے کلی کلی پیکر یاس بن گئی

جان بہار بن ترے باغ یہ سوگوار ہے


رنگ بہار پنجتن نکہت باغ نقش بند

غم میں ہیں سینہ چاک گل گر یہ کناں بہار ہے


دل کا سکوں اُجڑ گیا یار میرا بچھڑ گیا

حال میرا بگڑ گیا دل کو کہاں قرار ہے


ٹوٹے دلوں کو آئے چین کیسے میرے علی حسین

سونی ہے بزم اہل دل اب تیرا انتظار ہے


رہ گئیں انتظاریاں قلب کی بے قراریاں

لب پہ ہیں آہ و زاریاں آنکھ بھی اشکبار ہے


اپنی نگاہ فیض سے مے جو کبھی پلائی ہے

اب بھی اسی کا ہے سرور اب بھی وہی خمار ہے


آج نیازی ہیں اداس ڈیرے کے بام و در تمام

غمزدہ ہے فضائے دل چپ چپ سا کوئے یار ہے