یہ مردِ آہن یہ مشکلوں میں پیمبروں کو بچانے والا
یہ رنج و غم سے اٹی فضاؤں میں جھوم کر مسکرانے والا
یہ پستیوں میں بکھرتے ذروں کو چاند سورج بنانے والا
یہ چشم عالم کی پتلیاں انگلیوں کی زد پر نچانے والا
یہ میرے محبوب کا وصی ہے جو چاہے قدرت کا کام کرلے
یہ مرتضٰی ہے یہ ایلیا ہے یہی علی ہے سلام کرلے
میں لامکاں ہوں مرے مکاں کا جہان بھر میں مکیں یہی ہے
زمیں پہ یہ بو تراب ہوگا فلک پہ زہرہ جبیں یہی ہے
یہی ہے اسلام کا سراپا مزاجِ معیارِ دیں یہی ہے
یہی ہے سلطانِ دین و ایماں رموزِ حق کا امیں یہی ہے
اسی کے لخت جگر اجڑ کے احد کی قسمت سنوارتے ہیں
یہی ہے جس کو ازل سے مشکل میں انبیاء بھی پکارتے ہیں
یہ فقر کی سلطنت کا سلطاں یہ آدمیت کا تاجور ہے
یہ رہنما ہے سخنوروں کا یہی مسیحا کا چارہ گر ہے
یہ اوصیا میں بھی منفرد ہے یہ اولیاء میں بھی معتبر ہے
یہ انبیاء کی مشقتوں سے بھری مناجات کا ثمر ہے
اسی کے سینے میں دھڑکنوں کی طرح سے علمِ کتاب ہوگا
اسے سنواروں گا اس طرح سے یہ ہر طرح لاجواب ہوگا
مزاجِ منبر، نمازِ ایماں، نقیبِ وحدت، کلامِ اول
عروجِ وجداں، شعورِ انساں، غرور یزداں، نظامِ اول
سجودِ عاشق، رکوعِ عاقل، قعودِ آخر، قیامِ اول
خطیب کامل، ادیبِ عامل، لواء کا حامل، امامِ اول
یہی تو کونین میں نصیرِ مزاجِ عزم رسولؐ ہوگا
یہی تو ہے خانہ زاد میرا، یہی تو زوجِ بتول ہوگا
یقین کرلے کہ دین حق کی رگوں میں رقصاں لہو یہی ہے
مری محبت کی مملکت میں رواں دواں چار سو یہی ہے
اسے ضرورت کہاں کسی کی ہر ایک کی آرزو یہی ہے
مراغضب ہے جلال اس کا مرے کرم کی نمو یہی ہے
اسی کی اک ضرب پر نچھاور کروں گا میں دوجہاں کے سجدے
کہ جانتا ہوں جو یہ نہ ہو تو کہاں کا قبلہ کہاں کے سجدے ؟