یہ تو اکثر دہن شاہ زمن سے نکلا
کام امت کا حسین اور حسن سے نکلا
جب میں ابن علی اپنے وطن سے نکلا
نقد جاں کیلئے سب روتے تھے تن سے نکلا
گو میں بیمار ہوں پر ساتھ چلوں گی بابا
وقت رخصت ہی صغرا کے دہن سے نکلا
شب کو شادی ہوئی قاسم کی سحر قتل ہوئے
کوئی ارمان نہ دولہا کا دولہن سے نکلا
دختر شاہ پہ ہیہات تھی کیا ظلم وستم
دست نازک ہوا زخمی جو دین سے نکلا
رو کے فرمانے لگے بخشش امت کی دعا
ہاتھ عابد کا جو کوفہ میں رسن سے نکلا
میرے بابا میرے اصغر کو دکھا دو الله
دم سیکینہ کا اسی رنج ومحن سے نکلا
ظلم پر ظلم ہی کرتے رہے ظالم لیکن
شکوہ ظلم نہ زینب کے دہن سے نکلا
شہ کی مداحی کی بیدم جو بھرا دم تو نے
مطلب روز جزا شعر سخن سے نکلا