آج کیا وقت سحر مطلعِ تازہ اترا

آج کیا وقت سحر مطلعِ تازہ اترا

وصفِ رخ کےلیے مضمون چمکتا اترا


عرشِ اِلہام سے یوں نعت کا تحفہ اترا

شام میں جیسے ہو افلاک سے عیسیٰ اترا


نہ کسی اور کی تسکیں کو " کَفَینا " اترا

نہ کسی اور کی مدحت میں" رَفعنا "اترا


ان کی نعلین کے ذرے سے ہوا سامنا کیا ؟

چہرۂِ مہر ہے کس واسطے اترا اترا ؟


دیکھا اس گل کے لبِ ناز کو کیا تو نے گلاب ؟

نشّۂِ رنگ و نزاکت تِرا سارا اترا


انبیا پچھلے ہوئے اس کی مقدّم اخبار

مبتدا ہو کے مُؤَخَّر مرا پیارا اترا


پہلے خَیّاطِ ازل سے ہوا ظاہر وہ نور

بدنِ ہست سے پِھر نیست کا جامہ اترا


نورِ اَرضین و سماوات ہے جس سے مشتق

آدمی بن کے وہی نور خدا کا اترا


میرے اُمّی کو ہے رحماں نے پڑھایا ،گرچہ

لے کے جبریل امیں آیۂِ " اِقرا " اترا


تجھ پہ قرباں لبِ عیسیٰ ،اے ادائے ابرو

’’تیرے کشتہ کی زیارت کو مسیحا اترا‘‘


وجہِ تعطیرِ تکلُّم ہے گلابِ توصیف

ورنہ کیا نعت کے گلشن میں اضافہ اترا ؟


چاہِ یوسف بھی فدا ہے ذقنِ احمد پر

حُسن کا ڈول یہاں بہرِ تماشا اُترا


بنتِ صدّیق ! تِری عظمت و عِفَّت پہ نثار

تیری توصیف میں ہے نور کا سورہ اترا


ہے عجب حسن معظمؔ کہ جہاں ہے قرباں

اور ابھی چہرۂِ انور سے نہ پردہ اترا