کعبہ سیاہ پوش ہے کس کے فراق میں
اسود جمال زاد ہے کس طرح طاق میں
کعبے کی داستان ہو کیسے نہ دل ربا
آتا ہے تیرا نام سیاق و سباق میں
کیوں کر مطاف میں ہے اجالوں کا رتجگا
ہے کس کا نام رکّھا ہوا دل کے طاق میں
لمسِ لبِ حبیب کی سر مستی دیکھیے
زم زم رواں ہے آج بھی کس اشتیاق میں
وردِ زباں درود ہو ذکرِ خدا کے ساتھ
پھر تو کمال لطف ہو اس انطباق میں
کعبے پہ ہو نگاہ تو دل میں ترا خیال
کیسا سرور و کیف ہو اس اتفاق میں
آقا ترے حضور بھی آئے ترا ظفر
لائے گُلاب نعت کے طشتِ وراق میں