راحت بجاں معطّر وہ دل فزا تھا ہاتھ
عنبر فشاں ہو جیسے وہ مخملیں سا ہاتھ
جذبہ طلب کا مجھ میں ہوتا نہ تھا کبھی
رحمت نے اس کی بڑھ کر تھاما تھا میرا ہاتھ
گل کی لطافتیں ہیں جس پر نثار پیہم
ہے کتنا نرم و نازک میرے نبی کا ہاتھ
دامن میں لے کے خوشبو زلفِ حبیب کی
خوشبوئیں بانٹتا ہے دستِ صبا کا ہاتھ
شاہوں کی بھیڑ ہے کیوں در پرلگی ہوئی
اٹھا ہے شاید ان کی جود و سخا کا ہاتھ
آؤ کریم کے در دنیا کے غمزدو
ہر غم کو ٹالتا ہے اس غم کشا کا ہاتھ
میری نجات کو بس کافی ہے یہ ظفر
رہتا ہے سر پہ میرے آلِ عبا کا ہاتھ