آفاق میں جو سب سے بھلی در کی عطا ہے

آفاق میں جو سب سے بھلی در کی عطا ہے

وہ سرورِؐ کونین کے ہی در کی عطا ہے


دروازے مقدّر کے اسی در سے ہیں کھلتے

خوش بخت ہے وہ جس پہ ہوئی در کی عطا ہے


ہر ظلمتِ غم دُور ہے تقدیر سے ہوتی

انوار کی رم جھم سے بھری در کی عطا ہے


اندیشہ نہ تشویشِ مہ و سال ہے ان کو

وہ جن پہ مسلسل ہی رہی در کی عطا ہے


سرکارؐ کے روضے پہ شب و روز ہے کرتی

آلامِ زمانہ سے بری در کی عطا ہے


ہے مجھ کو قصیدے کی نگارش بھی عطا کی

’’مدحت کا قرینہ بھی اسی در کی عطا ہے‘‘


خوشبوئے محبت سے نوازا مجھے طاہرؔ

نکہت سے گلابوں کے بھری در کی عطا ہے