آنکھ والوں کا رابطہ نہ گیا

آنکھ والوں کا رابطہ نہ گیا

تجھ سے پردوں میں بھی چھپا نہ گیا


رو دیا میں لپٹ کے قدموں سے

سامنے دیکھ کر رہا نہ گیا


یا نبی اور بھی پیمبر رہیں

عرش حق پر تیرے سوا نہ گیا


عشق احمد نہیں جو سینے میں

وه در شاہ پر گیا نہ گیا


کبھی بیٹھے تھے ان کی محفل میں

آج تک دل سے وہ مزا نہ گیا


ہیں سخی اور بھی زمانے میں

کسی در پر ترا گدا نہ گیا


کیا سنا آ کے تو نے دنیا میں

ان کا جب ذکر ہی سنا نہ گیا


تجھ کو منزل سے دور کر دے گا

جو مدینے کو راستہ نہ گیا


عاصوں کو ہجوم عصیاں میں

تری رحمت کا آسرا نہ گیا


الله الله ذکر شاہ امم

میری رگ رگ سے یہ نشہ نہ گیا


مرا دشمن ہے جو لحد پہ مری

کر کے میرے لئے دعا نہ گیا


ترے در کے سوا نیازی سے

کسی در پر کبھی جھکا نہ گیا