آئے ہیں جب وہ منْبر و محراب سامنے
تسکیں کے کُھل گئے ہیں کئی باب سامنے
کیوں جگمگا اُٹھے نہ شب ِ تارِ زندگی
جب ہو رُخِ رسُولؐ کا مہتاب سامنے
پایا ہے لطفِ سرورؐ ِ عالم کو چارہ ساز
جب ہو نہ کوئی صورتِ اسباب سامنے
سُوئے حجاز قافلہ شوق ہے رواں
دریائے اضطراب ہے پایاب سامنے
اس زور سے دھڑکنا یہاں پر روا نہیں
ان کا حرم ہے اے دلِ بے تاب سامنے
کس شان سے حضورؐ ہیں مسجد میں جلوہ ریز
کتنے ادب سے بیٹھے ہیں اصحاب سامنے
تائبؔ فضائے شہرِ نبی ؐ ہے خیال میں
یا خُلد کا ہے منظرِ شاداب سامنے