اب جی میں ہے رہوں کہیں ابادیوں سے دور

اب جی میں ہے رہوں کہیں ابادیوں سے دور

مل جائے چار دن تو فراغت مرے حضور


ڈر ہے یہ اشک و چشم کا رشتہ نہ ٹوٹ جائے

کچھ دن رہی اگر یہی حالت مرے حضور


کیا جانوں آج کیوں ہے طبیعت مری اداس

کس چیز کی ہے دل کو ضرورت مرے حضور


درکار مجھ کو وسعتِ کون و مکاں نہیں

مجھ کو تو چاہیے درِ دولت مرے حضور


کس حال میں تھا جانے کہاں تھا کہاں نہ تھا

کچھ کرسکا نہ آپ کی خدمت مرے حضور