ایک عرصہ ہو گیا بیٹھے ہیں ہم
مصطفٰی کی دید کو ترسے ہیں ہم
موت کے آنے سے کب ڈرتے ہیں ہم
فرقتوں سے روز ہی مرتے ہیں ہم
کاش اب ان کی زیارت ہو ہمیں
دیدِ آقا کے لئے ترسے ہیں ہم
ہم بھی جاتے آپ کے طیبہ مگر
ہم تہی داماں تہی زر سے ہیں ہم
سبز گنبد کو بسا کر آنکھ میں
اک تصور سے وہاں بستے ہیں ہم
ہم بھی عاشق آپ کے ہیں یا نبی
دور رہ کر روز و شب تڑپے ہیں ہم
دل میں جَڑ کر شہرِ خوباں کے نگار
کب زیارت کے بنا رہتے ہیں ہم
جب بھی آفت گھیر لیتی ہے ہمیں
اپنے رب سے پھر بہت ڈرتے ہیں ہم
اک شفاعت کا ملا ہے آسرا
ورنہ قائم کیا سے کیا کرتے ہیں ہم