اللہ غنی کیسی وہ پر کیف گھڑی تھی

اللہ غنی کیسی وہ پر کیف گھڑی تھی

جب سامنے نظروں کے مدینے کی گلی تھی


نظروں سے لئے بوسے کبھی ہونٹوں سے چوما

اس شہر کی ہر چیز مجھے خوب لگی تھی


لج پالوں کے لج پال کی چوکھٹ پہ کھڑا تھا

قسمت مری اُس در پہ کھڑی جھوم رہی تھی


اُس نعت مقدس پہ ہر اک نغمہ تصدق

حسان نے جو نعت مدینے میں پڑھی تھی


کیفیت دل کیسے بتاؤں تمہیں لوگو

جب پہلی نظر گنبد خضری پہ پڑی تھی


مجرم تھا کھڑا سر کو جھکائے ہوئے در پر

آنسو تھے رواں ایسے کہ ساون کی جھڑی تھی


اُس شہر کے ذرے تھے چمکتے ہوئے تارے

ہر چیز وہاں نور کے سانچے میں ڈھلی تھی


لے ڈوبتے اعمال مرے مجھ کو نیازی

جا پہنچا مدینے مری تقدیر بھلی تھی