آپؐ کی نعتیں میں لکھ لکھ کر سناؤں آپؐ کو

آپؐ کی نعتیں میں لکھ لکھ کر سناؤں آپؐ کو

کِس طرح راضی کروں کیسے مناؤں آپؐ کو


آپؐ کو راضی نہ کر پایا تو مرجاؤں گا مَیں

چھوٹی چھوٹی کِرچیاں بن کر بکھر جاؤں گا مَیں


زندگی کا اِس طرح مجھ کو مزہ کیا آئے گا

دِل سیاہی کے بھنور میں ڈوبتا رہ جائے گا


واسطہ دوں آپؐ کو مَیں آپؐ کے حسنین کا

یارِ غارِ ثور کا صدیقء کونین کا


آپؐ تو دشمن کے حق میں بھی دُعا کرتے رہے

بے وفا لوگوں سے بھی ہر دم وفا کرتے رہے


آپؐ تو رحمت ہی رحمت ہیں جہانوں کے لیے

میرے جیسے بے عمل اور بے ٹھکانوں کے لیے


آپؐ کا ہے رُوٹھنا ارض و سما کا رُوٹھنا

عرش کا سارے جہانوں کے خدا کا رُوٹھنا


آپؐ کی نظروں سے جو گِرتا ہے مرجاتا ہے وہ

راکھ بن کر اپنے قدموں میں بکھر جاتا ہے وہ


اِس طرح تو آدمی خود آدمی رہتا نہیں

صاحبِ ایمان کیا ، انسان بھی رہتا نہیں


کیسے کیسے دشمنوں پر رحم کھایا آپؐ نے

آگ سے کتنے ہی لوگوں کو بچایا آپؐ نے


اپنے جُوتوں ، اپنے سایے میں بٹھا دیجے مجھے

آپؐ کا ناچیز خادم ہوں دُعا دیجئے مجھے


زندگی کی تیز لہروں میں نہ بہہ جاؤں کہیں

گرد بن کر راستے ہی میں نہ رَہ جاؤں کہیں


آپؐ کو خاتونِ جنّت اور علی کاواسطہ

آپؐ کو فاروق و عثمانِ غنی کا واسطہ


زندگی کو اِک بہت مشکل سفر در پیش ہے

ایک مشکل امتحاں بارِ دگر در پیش ہے


سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں سوچ ہی میں قید ہوں

بے بسی گھیرے ہوئے ہے بے بسی میں قید ہوں


ٹوٹتے جاتے ہیں سارے آسرے جتنے بھی ہیں

بے اثر ہیں لوگ سب چھوٹے بڑے جتنے بھی ہیں


کس قدر ، کتنا ضروری ہے سہارا آپؐ کا

میری قسمت ہی بدل دے گا اشارا آپؐ کا


لوگ اکثر شاعرِ اصحاب کہتے ہیں مجھے

اُن کی خاطر ، روز و شب بے تاب، کہتے ہیں مجھے


بے عمل ہوں مغفرت کا اک سہارا ہے ضرور

آپؐ کا ہر اک صحابی جاں سے پیارا ہے ضرور


میں نے مختص کر لی اپنی چشمِ تر اُن کے لیے

مضطرب رہتا ہوں مَیں شام و سحر اُن کے لیے


میں نہ سرمد ہوں نہ مجنوں ہوں نہ مَیں منصور ہوں

اُن کا شاعر اور اُن کا بندۂِ مزدور ہوں


میری خواہش ہے کہ اُن کی خوبیاں لکھتا رہوں

شوق سے میں آسماں کو آسماں لکھتا ہوں


اُن کے صدقے آپؐ مجھ پر مہربانی کیجئے

میرے حالِ زار پر آقا توجہ دیجئے


آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

خواجگی اور بندگی کی یہ فضا قائم رہے


میرے سر پر مشکلوں کا آسماں گرنے کو ہے

ذرّہء ناچیز پر کوہِ گراں گرنے کو ہے


گھپ اندھیرے میں کھڑا ہوں اے حرا کے آفتاب

پُرزہ پُرزہ ہو رہی ہے میری خوشیوں کی کتاب


میرے حق میں اپنے خالق سے دعا فرمائیے

اے مرے آقاؐ کرم کی انتہا فرمائیے


دیکھتے ہیں تو مجھے بے آسرا کہتے ہیں لوگ

عہدِ ماضی کی کوئی بھُولی صدا کہتے ہیں لوگ


کس طرح روکوں مَیں اس طوفان اور سیلاب کو

ذہن سے کیسے نکالوں خوفناک اس خواب کو


میری اپنی سانس بھی اب تو مرے بس میں نہیں

تھک گئی ہے چلتے چلتے اب مری لوحِ جبیں


دیکھ کر دُشوار راہیں زندگی گھبرا گئی

میرے گھر تک آتے آتے روشنی گھبرا گئی


سبز گنبد کی طرف اُٹھتی ہیں نظریں بار بار

آپؐ کی رحمت کو دیتا ہے صدا یہ خاکسار


خالقِ ارض و سما سے اب دُعا کیجئے حضورؐ

مہرباں ہوجائیں مجھ عاصی پہ اب ربِ غفور


میری ہمت سے زیادہ ہے پریشانی کا بوجھ

میں اٹھا سکتا نہیں اپنے تنِ فانی کا بوجھ


راہ پر چلتے ہوئے اب ڈگمگا جاتا ہوں مَیں

سانس لینے پر بھی اب تو لڑکھڑا جاتا ہوں مَیں


لب ہلا دیجے مری خاطر دُعا کے واسطے

رحم فرما دیجئے مجھ پر خدا کے واسطے