اے مرشدِ کامل صل علیٰ اے ہادئِ اکبر کیا کہنا
دُنیا کو دکھائی راہِ خدا اے دہر کے رہبر کیا کہنا
ہر سمت تجلّی ہے تیری ہر قلب کو حاصل ہے سیری
اے ماہِ عرب اے مہرِ عجم اے ساقئِ کو ثر کیا کہنا
وہ کون سی ہے نعمت ایسی جو تو نے نہیں ہم کو بخشی
اے ختمِ رُسل سُبحان اللہ اے شافعِ محشر کیا کہنا
ہے تیرے چمن کا رنگ نیا انداز نیا ہے ڈھنگ نیا
ہر غنچہ بجائے خود گُل ہے یثرب کے گُلِ تر کیا کہنا
سب تیری ضیا کا صدقہ ہے اک نور جہاں میں پھیلا ہے
تارے ہیں روشن صل علیٰ ذرّے ہیں منّور کیا کہنا
جو آنکھ ہو تیرے نام پہ تر اُس آنکھ پہ صدقے قلب و جگر
جو سر کہ ہو تیری چوکھٹ پر اس سر کا مقدر کیا کہنا
ہر شعر میں دل کا حال لکھا جو دل پہ گذرتی تھی وہ کہا
بہزؔاد حزیں کیا خوب لکھی یہ نعت پیمبر کیا کہنا