اذاں میں مصطفیٰ کا نام جب ارشاد ہو وے ہے
سرِ مژگاں شہِ کونین کا میلاد ہو وے ہے
ادب سے نعت کے سارے محاسن سیکھتا ہوں میں
محبت کا حسیں جذبہ مرا استاد ہو وے ہے
اسے ہر چیز ملتی ہے شہِ ابرار کے در سے
مدینے کا گدا ہر فکر سے آزاد ہو وے ہے
کہاں کچھ یاد رہتا ہے سوائے اسمِ سرور کے
نصابِ عشقِ سرور کا سبق جب یاد ہووے ہے
شفاعت کی توقع پر درودِ پاک پڑھتا ہوں
مرے پیشِ نظر سرکار کا ارشاد ہو وے ہے
بنا کر میم خالق نے بنایا دو جہانوں کو
الف بے کا جھمیلا بعد میں ایجاد ہو وے ہے
اسی کے نام سے اشفاقؔ ہیں جذبات وابستہ
کہ جس کا نامِ نامی بس خدا کے بعد ہو وے ہے