باغِ عالم میں ہے دِلکشی آپ سے

باغِ عالم میں ہے دِلکشی آپ سے

اور پھولوں میں ہے تازگی آپ سے


کُفر کا دور تھا ظُلمتیں جابجا

ہو گئی دہر میں روشنی آپ سے


قاسمِ نعمتِ کبریا آپ ہیں

جو بھی دولت مِلی وہ مِلی آپ سے


رہنما سیرتِ طیّبہ آپ کی

لے رہا ہے جہاں آگہی آپ سے


یہ زمین و زماں یہ مکین و مکاں

ہے سبھی کی بقا یا نبی آپ سے


اور کیا غیب ہو آپ سے کچھ نہاں

ذاتِ ربُّ العُلیٰ نا چُھپی آپ سے


رُخ کی طلعت شہا مُجھ کو دِکھلائیے

رات دن یہ مری لو لگی آپ سے


بات بگڑی ہوئی میری پل میں بنی

دل سے فریاد جب میں نے کی آپ سے


دم میں جب تک ہے دم نعت مرزا کہے

عرض ہے عاجزانہ یہی آپ سے