بہارِ ذکرِ احمد سے جو بیگانہ نہیں ہوتا ،
وہ دل فردوس بن جاتا ہے ویرانہ نہیں ہوتا
یہی ایمان ہے ایمانِ کامل کی ضمانت بھی
محمدؐ کا جو دیوانہ ہے دیوانہ نہیں ہوتا
مری بے مائگی پہ ہنسنے والو یہ بھی سوچا ہے
وہ خود ان کے ہیں جنکے پاس نذرانہ نہیں ہوتا
نبی ؐ کے میکدے میں اَور ہیں آدابِ مے نوشی
یہاں آنکھوں سے پی جاتی ہے پیمانہ نہیں ہوتا
نظر کو ویراں سکوں برباد دل ناشاد ہی رہتا
اگر میں سرورِ عالمؐ کا دیوانہ نہیں ہوتا
شہادت گاہ تک تو عشق کو جانا ہی نہیں ہوتا
نہ ہو جو شمع پر قربان پروانہ نہیں ہوتا
لئے پھرتا ہے میخانے کا میخانہ نگاہوں میں
جو ان کا مست ہے مرہونِ میخانہ نہیں ہوتا
تمہارا نام ہی خالدؔ کے افسانے کا عنوان ہے
حقیقت آشنا ورنہ یہ افسانہ نہیں ہوتا