برس چالیس گذرے نعت کی محفل سجانے میں

برس چالیس گذرے نعت کی محفل سجانے میں

مجھے قسمت جگانے میں انہیں رحمت لٹانے میں


برس پینتیس گذرے شوق کو نذرِ قلم کرتے

مجھے نعتیں رقم کرتے انہیں مجھ پر کرم کرتے


اچانک نیند سے جیسے مجھے کوئی جگاتا ہے

اُجالا ہو نہیں پاتا مقدر جگمگاتا ہے


زباں جو کہہ نہیں سکتی جب ایسی بات لکھتا ہوں

میرے آنسو مدد کرتے ہیں جب میں نعت لکھتا ہوں


بہت آساں ہے شاہِ مدینہ کی ثنا کرنا

بہت مشکل ہے اندر بھی وہی حالت بپا کرنا


تقا ضا عمر کا میری کہاں لے کر مجھے آیا

ارادہ صرف باندھا اور کرم نے کر دیا سایہ


لکھوں اس طرزِ نو میں یہ میرا اعزازِ خامہ ہو

جو شاہوں کے شہنشاہ ہیں یہ اُن کا شاہنامہ ہو


گدا ہیں ان کے در کے تاجور جتنے جہاں میں ہیں

وہی تو ہیں جو بندوں اور خدا کے درمیاں میں ہیں


وہی الفاظ بخشیں گے وہ ہی مجھ کو زباں دیں گے

زباں کو شاہنامے کے لیے حسنِ بیاں دیں گے


خدایا ابتدا کرتا ہوں نامِ مصطفیٰ لے کر

کرم کی بھیک حسنِ جود لے کر اور سخا لے کر


یہ نام مصطفیٰ کشتی کو میری پار کردے گا

وہ اس گونگی زباں کو قابلِ گفتار کردے گا


جب اُن کا حسن خود کو مطلع انوار کر دے گا

مری چشمِ طلب بھی قابل دیدار کر دے گا


حرا کی بلندی زیرِ پائے مصطفیٰ آنا

دو عالم کی زباں پر اس کا جبلِ نور کہلانا