بڑی دیر کی ہے تمنا، الہٰی مجھے بھی دکھا دے دیارِ مدینہ

بڑی دیر کی ہے تمنا، الہٰی مجھے بھی دکھا دے دیارِ مدینہ

لگاؤں میں سینے سے روضے کی جالی سجاؤں میں سر پر غبارِ مدینہ


چلیں جس گھڑی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں مجھے یاد آئیں حرم کی فضائیں

کسی بھی چمن میں نہ جی کو لگائے کہ دیکھی ہو جس نے بہارِ مدینہ


مدینے کی فرقت میں میں نیم جاں ہوں خیالوں میں گم ہوں نہ جانے کہاں ہوں

مجھے دیکھ کر یوں کہیں لوگ سارے کہ جاتا ہے وہ بے قرارِ مدینہ


خدا کو ہے محبوب طیبہ کی بستی جہاں جلوہ گر اس کی محبوب ہستی

ہوا وہ بھی محبوب سارے جہاں کو ہوا جو بھی دل سے نثارِ مدینہ


مرا آخری وقت جس وقت آئے مدینے کی ٹھنڈی ہوا ساتھ لائے

مری آنکھیں رکھنا کھلی میرے یارو کہ ہوگا مجھے انتظارِ مدینہ


مجھے اپنی رحمت کی سوغات دے دو بس اپنے ہی جلوے کی خیرات دے دو

ظہوریؔ بھی در پر کھڑا ہے سوالی کرم کیجئے تاجدارِ مدینہ