بشر کیا لکھے گا مقامِ محمد
خود اپنا قصیدہ ہے نامِ محمد
بھَلے سب خدا کے ، بُرے سب ہمارے
حدیثِ محمد کلامِ محمد
شمیمِ مُعطر ، نسیمِ معنبر
ہوا جس طرف بھی خرامِ محمد
شعائیں کرم کی ، گھٹا رحمتوں کی
وہ صبحِ محمد، یہ شامِ محمد
ہر اِک کاسہ لبریز ، ہر فاصلہ طے
زِ دستِ محمد زِ گامِ محمد
خدا ساری اُمت کو کر دے نمازی
طفیلِ رکوع و قیامِ محمد
یہ کعبہ کیا؟ تربیت گاہِ اُلفت
سکھاتا ہے جو احترامِ محمد
بنایا محمد کو خالق نے ، آقا
بنی ساری خَلقت غلامِ محمد
یدِ مصطفیٰ میں سناتے تھے کنکر
پیامِ محمد، سلامِ محمد
نسیما! تیرے دن بھی کیسے پھرے جب
کُھلے گیسوئے مشکِ فامِ محمد
وہ ہر اُمتی کی شفاعت کریں گے
سنا دو یہ سب کو پیامِ محمد
ادیبؔ اب کوئی خوف دل میں نہیں ہے
وہاں پر تو لکھا ہے ، نامِ محمد