بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ

بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ

آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوۂ جانانہ


اتنا تو کرم کرنا اے چشم کریمانہ

جب جان لبوں پر ہو تم سامنے آ جانا


کیوں آنکھ ملائی تھی کیوں آگ لگائی تھی

اب رخ کو چھپا بیٹھے کر کے مجھے دیوانہ


زاہد میرے قسمت میں سجدے ہیں اسی در کے

چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا سنگ در جاناناں


کیا لطف ہو محشر میں میں شکوے کئے جاؤں

وہ ہنس کے کہے جائیں دیوانہ ہے دیوانہ


ساقی تیرے آتے ہی یہ جوش ہے مستی کا

شنے پر گرا شیشہ پیمانے پہ پیمانہ


معلوم نہیں بیدم میں کون ہوں اور کیا ہوں

یوں اپنوں میں اپنا ہوں بیگانوں میں بیگانہ

شاعر کا نام :- بیدم شاہ وارثی

کتاب کا نام :- کلام بیدم

دیگر کلام

زیارت ہو مجھے خیر البشر کی

آپکی فرقت نے مارا یا نبی

دی خبر اب تو مری بے خبری نے مجھ کو

محمد مظہر اسرار حق ہے کوئی کیا جانے

کہتا ہے کون آپ ہمارے قریں نہیں

صدمہ ہجر نہیں اب تو گوارا مجھ کو

جلوہ افروز ہیں سلطان جہاں پھولوں میں

دردنداں کی ضیا ہے جو ہمارے گھر میں

ترا مست مست جو ساقیا ہو رہا ہے

مومنو دین کے سردار چلے آتے ہیں