بھاگتی تھی ڈھونڈنے پانی کو ماں

بھاگتی تھی ڈھونڈنے پانی کو ماں

حاجرہ مہر و وفا کی ترجماں


ایک ماں تھی وادیِ بے زرع میں

اور اک بیٹا تھا زیرِ آسماں


ایڑیاں رگڑیں جو پیاسے طفل نے

چشمۂ زمزم کیا رب نے رواں


ہے اسی مادر کی سنّت آج تک

سعیِ عمرہ کی حقیقی داستاں


ذکرِ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ سے

تذکرہ ہے شاہؐ کا منظور یاں


شاہِؐ والا کے ہمہ اسلاف ہیں

دین کی تاریخ کے روحِ رواں


ہے وراثت کعبۃ اللہ آپؐ کی

صاحبِ قرآں ، امامِ مرسلاں!


اتّباعِ سیّدِؐ کونین میں

جانبِ طیبہ ہوں مکّہ سے رواں


آبِ زمزم پی کے پیاسیں بجھ گئیں

جامِ کوثر کی طرف ہے اب دھیاں


شکر ہے مدحت گرانِ شاہؐ میں

ایک طاہرؔ بھی ہے ان کا نعت خواں