چھوڑ دے اب تو اے دُنیا میرا پیچھا چھوڑ دے
میری منزل ہے مدینہ میرا رستہ چھوڑ دے
بھیک بن مانگے ملے جاتی ہے اُن کے نام کی
کس طرح منگتا نبی کا نام لینا چھوڑ دے
ہو وہ محبوب خدا مالک نہ ہو مجبور ہو
چھوڑ دے کم ظرف یہ اپنا عقیدہ چھوڑ دے
آئیں تو اُن کا کرم نہ آئیں تو شکوہ نہ کر
ان کی تو بن جا رضا اپنا تقاضہ چھوڑ دے
چھوڑ دے دنیا اگر مجھ کو تو کوئی غم نہیں
اے خیال یار تو مجھے کو نہ تنہا چھوڑ دے
ساقی کوثر کے مے خانے سے بھر بھر جام پی
میں نہیں کہتا مدینے والی پینا چھوڑ دے
پھول کھلتے ہیں مرادوں کے سخی دربار میں
کیوں کوئی داتا کے در پر آنا جانا چھوڑ دے
ایسے مورکھ کا کوئی پھر اپنا بنتا ہی نہیں
جو بھی دانستہ نیازی اپنا آقا چھوڑ دے