درِ دل پر ہوئی دستک تو میں تیری طرف دوڑا

درِ دل پر ہوئی دستک تو میں تیری طرف دوڑا

تری یادوں کا دامن پھر کبھی میں نے نہیں چھوڑا


وہ دن کتنا مبارک تھا وہ شب کتنی مقدس تھی

تعلق جب تری بستی ترے اصحاب سے جوڑا


ہزاروں آندھیاں گزریں ہزاروں زلزلے آئے

غلامی کا تعلق مَیں نے آقا سے نہیں توڑا


تری رحمت نہیں محدود ساری اپنے یاروں تک

مرے جیسے کمینوں سے بھی منہ تو نے نہیں موڑا


ترا دستِ سخاوت ہے تصور سے کہیں بڑھ کر

کسی بھی مانگنے والے کو تو دیتا نہیں تھوڑا


مری ساری خطاؤں لغزشوں کے باوجود انجؔم

مرے آقا نے دنیا میں مجھے تنہا نہیں چھوڑا