دیکھ اے دل! یہ کہیں مُژدہ کوئی لائی نہ ہو
اُس دیارِ پاک سے چل کر صبا آئی نہ ہو
راہِ طیبہ میں خیال ہوش و دانائی نہ ہو
کیا سفر کا لُطف جب تک بے خودی چھائی نہ ہو
اُنؐ کا جلوہ ہو، ہمارے قلب کا آئینہ ہو
اور کوئی دُوسری صورت سے رعنائی نہ ہو
دل نے جب حُسنِ عقیدت سے کیا ہے اُن کو یاد
غیر ممکن ہے کہ اب اِس کی پذیرائی نہ ہو
نسبتِ شاہِؐ مدینہ کر گئی دل کو غنی
مَیں گدائی میں بھَلا، قسمت میں دارائی نہ ہو
اے مِرے دل! تیری رونق ہے جمالِ مصطفیٰؐ
عالمِ فانی کے جلووں کا تماشائی نہ ہو
کیا خبر اُس کو کہ مستی عشق کی ہے چیز کیا
میرے ساقی نے جسے آنکھوں سے پلوائی نہ ہو
اُلفتِ خیرالوریٰ ؐ میں رات دن رہتا ہُوں گُم
کون سا دَم ہے کہ جس دَم اُن کی یاد آئی نہ ہو
لے چلے ہو! اے فرشتو! جس کو دوزخ کی طرف
دیکھ لو پھر غور سے، یہ اُن کا شیدائی نہ ہو
ہے وہ دیوانہ، جو دیوانہ محمدؐ کا نہیں
ہے وہ سودائی، محمدؐ کا جو سودائی نہ ہو
کَل بھَلا محشر میں پہچانے گا کون اُس کو نصیرؔ
قبر میں جس کی محمدؐ سے شناسائی نہ ہو