دل نے بڑی دانائی کی ہے تیرا دامن تھام لیا ہے
سچ تو یہ ہے کونین میں آقا تیرے سوا رکھا بھی کیا ہے
میرا گھر اور تیرے جلوے میرے قدم اور تیری آنکھیں
کیسی بندہ نوازی کی ہے کتنا بڑا احسان کیا ہے
میری تنہائی میں تو اکثر تیرا گذر تو رہتا ہی تھا
آنکھوں کی تسکین کا لیکن اب آکر سامان ہوا ہے
میں نے اسے سینے سے لگایا اس جو سر آنکھوں پہ بٹھایا
جو بھی تیرے شہر سے لوٹا جس نے بھی ترا نام لیا ہے
دیکھیے کب ملتا ہے بلاوہ کب ملے ہے اذنِ حضوری
ہلکی سی دستک تو دی ہے ایک سندیسہ تو بھیجا ہے
گلشنِ زیست کے ہر بوٹے پر ہر ڈالی پر ہر پتے پر
اے وجہِ تخلیقِ دو عالم نام تیرا لکھا دیکھا ہے
اس نے اسی انداز سے دیکھا اس نے اسی ڈھب سے پہچانا
جس کو جیسی آنکھ ملی ہے جتنا جسے عرفان ملا ہے
تیری اطاعت حاصلِ ایماں تیری محبت جانِ عبادت
پیشِ نظر ہے یہ بھی حقیقت لائقِ سجدہ ذاتِ خدا ہے
تیری مدحت کہنے والے میرے لیے کیا چھوڑ گئے ہیں
بات وہی ہے لیکن سب کے کہنے کا انداز جدا ہے
تیرا رستہ چھوڑ چکی ہے تیری باتیں بھول گئی ہے
جس سمت کی خاطر تو نے کیسا کیسا ظلم سہا ہے
جس کی سرشت میں مہرِ وفا ہو جس کے دل میں خوفِ خدا ہو
میرے آقا آج وہ انساں صرف کتابوں میں ملتا ہے
اس زنداں میں زندہ رہنا معمولی سی بات نہیں ہے
تیری رفاقت کام آئی ہے تیرے کرم نے ساتھ دیا ہے
آقا مجھ کو ساتھ ہی رکھنا اپنی نظر سے دور نہ کرنا
ہر جانب مسموم فضا ہے فتنہ گری کا جال بچھا ہے
آج ہے پھر درکار امت کو تیری ردائے پاک کا سایہ
آج بھی محشر کا سا سماں ہے دھوپ کڑی ہے تند ہوا ہے
جب بھی یہی پہچان تھی اپنی اب بھی یہی پہچان ہے اپنی
اعظم تیرا نعت سرا تھا اعظم تیرا نعت سرا ہے