دلِ تپیدہ ہے صحرا تو چشمِ تر دریا

دلِ تپیدہ ہے صحرا تو چشمِ تر دریا

ہے ہجرِ طیبہ میں صحرا کا ہم سفر دریا


یہ آج دل کے سبھی بند کیسے ٹُوٹ گئے

کبھی تو آنکھ میں آتا تھا بُوند بھر دریا


مِرے وجود کا ایک ایک ذرّہ پیاسا ہے

مِری زمیں سے نہ گُزرے گا بے خبر دریا


سفینے کو غمِ طوفاں نہ خطرۂ گرداب

تری نگاہ نے رکّھا ہے بانّدھ کر دریا


گھٹا جو جھُوم کے اُٹھّی تھی کوہِ فاراں سے

بہے ہیں فیض سے اُس کے نگر نگر دریا


نوید ہو تری اُمّت کی خاکِ مُردہ کو

وُہ آگیا تری رحمت کا جوش پر دریا


ہماری زیست تہی تیرا ہاتھ ابرِ کرم

ہماری کشت بیاباں تری نظر دریا


مُجھے مدینے کے آثار جب نظر آئے

تو میری آنکھ سے ٹپکا گہر گہر دریا


رواں ہیں سب مری موجیں اُسی کے ساحل تک

بنا ہے جِس کے کرم سے مرا ہُنر دریا


یہ ذوقِ نعت بھی عاصی اُسی کی رحمت ہے

ہے میری خاک کے کینوس پہ نقش گر دریا