دشمنوں نے لاکھ کیں گستاخیاں سرکار کی
بد زبانی پر نہیں اُتری زباں سرکار کی
ماہ وخور سرکار کے ہیں کہکشاں سرکار کی
ملکیت میں ہیں زمین و آسماں سرکار کی
عرش کو بھی ہوگئی معراج کی دولت نصیب
چوم کر اسریٰ کی شب میں ایڑیاں سر کار کی
سائلو! تم ہی بتا دو ہے کہیں کوئی نظیر
کیا کبھی کھائیں کسی نے جھڑکیاں سرکار کی
مشکلوں میں گھِر کے رہ جاتی ہیں ساری مشکلیں
کرتی رہتی ہے ثنا میری زباں سرکار کی
وہ حرا کی وادیاں ہوں یا فضائے غارِ ثور
اب بھی خوشبو پائی جاتی ہے وہاں سرکار کی
روئےانور کو لکھیں تو کیا لکھیں ہم جب شفیقؔ
چاند سے بڑھ کر ہیں روشن ایڑیاں سرکار کی