فلک سے اک روشنی زمیں پر اتر رہی ہے

فلک سے اک روشنی زمیں پر اتر رہی ہے

جدھر جدھر سے سواری انکی گزر رہی ہے


رُتوں کی زنجیر توڑ دی انکی رحمتوں نے

خزاں میں بھی ایک تازگی روح پر رہی ہے


مرے خدا مانتا ہوں فردِ عمل ہے خالی

حضورؐ والا سے خاص نسبت مگر رہی ہے


یہ کون عالی مقام اس خاکداں میں آیا

ہر اک بلندی زمین پر پاؤں دھر رہی ہے


یقیں نہ آئے تو جا کر روضے پہ دیکھ آؤ

طواف سرکار کی مری روح کر رہی ہے


میں بے عمل ہی سہی مظفر مگر ہوں اُن کا

سیا ہیوں میں بھی میرے اندر سحر رہی ہے