گرے جب اشک طیبہ میں پلک سے

گرے جب اشک طیبہ میں پلک سے

ملائک تھامنے آئے فلک سے


مری آنکھوں میں دشتِ کربلا ہے

اسے سیراب کر دو اک جھلک سے


شرف بخشا حبیبِ کبریا نے

بشر اشرف ہوا جن و ملک سے


ترے دم سے ہیں مہر و ماہ روشن

سجی ہے کہکشاں تیری چمک سے


دیارِ مصطفیٰ لے جائے مجھ کو

گزارش ہے مدینے کی سڑک سے


مجھے حرف و ہنر کر دو عنایت

سجا دوں نعت سب رنگی دھنک سے


ملے اشفاقؔ اذنِ بار یابی

چمک جاؤں مدینے کی دمک سے