ہے اک آشوبِ مسلسل یہ اندھیروں کا نزول

ہے اک آشوبِ مسلسل یہ اندھیروں کا نزول

ایک ہلکی سی کرن ، اُمتِ عاصی کے رسُول ؐ !


کچھ انوکھے ہیں زمانے کے جہانبانوں سے

تیری شفقت کے ، محبت کے ‘ مروّت کے اصول


ظلمتیں کر نہ سکِیں تیرے عزائم کو علیل

کر سکا کوئی جفا جُو نہ تیرے دل کو ملول


کتنے طوفان اُٹھے ، کتنے حوادث اُبھرے

پھر بھی بدلا نہ ترے دستِ عطا کا معمول


تُو وہ محبُوب پیمبرؐ ہے کہ خالق کے حضور

تیری ہر بات پسندیدہ ، ادائیں مقبُول


روحِ فردوسِ بریں ، تیرے بدن کی مہکار

سرمۂ دیں افلاک ، ترے پاؤں کی دُھول


گُم تری ذات میں افلاک ، بقولِ اقباؔل

پھر بھی افلاک سے ہوتے رہے احکام وصُول ؟


آگیا کام شب و روز کا رونا آخر

ہوگئی بارگہہِ شِہؐ میں مری نعت قبُول


حاصِل نعت ہے شہرؔت کا یہ مصرع اعظؔم

” میں سگِ دنیا کہاں اور کہاں نعتِ رسُولؐ “