حشر میں مصطفیٰ کی شفاعت پہ

حشر میں مصطفیٰ کی شفاعت پہ ہم عاصیوں کو بڑا فخر ہے ناز ہے

ہاتھ میں ان کے ہوگا لو احمد کا ان کی محبوبیت کا یہ انداز ہے


روح آدم کو ان کی بدولت ملی سارے انوار اُس نور پر منتہی

خِلق اور خُلق میں اُن کی ہی برتری نورِ احمد ہی تو حرفِ آغاز ہے


عرش سے آگے کس کو بلایا گیا کس کو اسریٰ کا دولہا بنایا گیا

پردہء ذات کس پر اٹھایا گیا کیا کہا کیا سنا یہ بھی اک راز ہے


تو نے باندھی ہے دستارِ جود و سخا، میرے تن پر ہے جرم و خطا کی عبا

میں سراپا معاصی میں ہوں مبتلا عفو اور در گزر میں تو ممتاز ہے


حور و غلماں ملائک کی پیشانیاں تیرے ہی نام سے پائیں تابانیاں

فرش سے عرش تک شرق سے غرب تک میرے سرکار تیری ہی آواز ہے


میرے کشکولِ حاجات میں یا نبی ڈال دیجیے اجابت کی تھوڑی سی بھیک

آپ کے در سے سائل نہ خالی پھرے آپ کا جود منگتوں کا دم ساز ہے


نظمی کو جو رضا کا مخالف کہے مرتے دم اس کے لب پر نہ کلمہ رہے

ہمہ دانی کا دعویٰ ہے جس شخص کو وہ منافق ہے جھوٹا دغا باز ہے