حیات حبِ نبی میں اگر گزر جائے
تو یہ جہاں ہی نہیں آخرت سنور جائے
نگاہِ فیضِ رسالت جدھر جدھر جائے
بہارِ رحمتِ حق بھی ادھر ادھر جائے
خدا کے خوف سے معمور جس کا سینہ ہے
جہانِ ظلم سے ممکن نہیں وہ ڈر جائے
نبی سے عشق کا ہو جائے مستند دعویٰ
عمل سے تیرا جو کردار بھی نکھر جائے
اگر نبی کے وسیلے سے مانگ لے تو دعا
سفینہ نرغۂ گرداب سے ابھر جائے
حضور کا جو ہے گستاخ جنتی ہی نہیں
دیارِ پاکِ نبی میں جیے کہ مر جائے
بغیر حبِ نبی آرزو نہ کر اس کی
نبی کے شہر میں یہ زندگی گزر جائے
ہے وقت اسوۂ آقا میں ڈھال لے خود کو
نہ جانے چلتی ہوئی سانس کب ٹھہر جائے
عمل سے بن جا تو شیدائیِ نبی احسؔن
جو چاہتا ہے مقدر ترا سنور جائے