حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

زندگی آپؐ کے قدموں میں گزاروں کیسے


میں نے دیکھا تو نہیں آپؐ کو ، سوچا ہے بہت

خیرہ آنکھوں میں خد و خال اُبھاروں کیسے


جسم کے ساتھ مری رُوح بھی آلودہ ہے

رُوح میں آپؐ کے جلووں کو اتاروں کیسے


اِک لگن ہے کہ شب و روز رلاتی ہے مُجھے

میرے آقاؐ یہ شب و روز گزاروں کیسے


اے خبر گیر و خطا پوش و خطا بخش مرے

اتنی بگڑی ہُوئی صُورت کو سنواروں کیسے


یاد آتے ہیں مصیبت میں ہمیشہ غم خوار

” یا محمدؐ“ نہ کہوں میں تو پکاروں کیسے


آپؐ کے قدموں پہ جُھکنے کو جبیں ہے بیتاب

آپؐ کا حکم نہیں سجدہ گزاروں کیسے