جب بھی حصار غم کا مجھے توڑنا پڑا
مجھ کو در نبی کی طرف دیکھنا پڑا
قسمت سے آگیا ہوں دیار رسول میں
اوج فلک کو میرا قدم چومنا پڑا
جس کو بھی مل سکا نہ قیامت میں آسرا
آخر اسے حضور ہی کو ڈھونڈنا پڑا
امکان کی حدوں سے میں آگے نکل گیا
جب نعت مصطفیٰ کے لئے سوچنا پڑا
یہ معجزہ ہے آپ کے خلق عظیم کا
جو مانتے نہیں تھے انہیں ماننا پڑا
طوفاں کا زور ٹوٹ گیا ان کے فیض سے
خود حادثوں کو پیچھا مرا چھوڑنا پڑا
گم تھا میں ان کے شہر کے حسن و جمال میں
یہ کون درمیان میں اس وقت آ پڑا
جب کنکروں کو آپ نے اذن سخن دیا
مٹھی میں بوجہل کی انہیں بولنا پڑا
اتنا بھرا نبی نے مرا دامن مراد
غیروں کی سمت پھر نہ کبھی دیکھنا پڑا
آؤ کہ کوئی بزم سجائیں حضور کی
دنیا کی محفلوں میں نیازی ہے کیا پڑا