جب نام سے آقا کے میں نعرہ لگا اُٹّھا

جب نام سے آقا کے میں نعرہ لگا اُٹّھا

پل بھر میں مرے سر سے انبارِ بلا اُٹّھا


روضہ کا وہ نقشہ میں لے آیا تصور میں

جب درد مِرے دل میں ہر دن سے سِوا اُٹّھا


اقرا کی صدا اب بھی باقی ہے فضاؤں میں

برکت لیے قرآں کی وہ غارِ حرا اُٹّھا


پہنچا وہی منزل پر ابھرا وہی ساحل پر

جو عشق کے رستے میں ہر گام گرا، اُٹّھا


جبریلِ امیں اترے لشکر لیے قدوسی

جب بدر کے میداں میں وہ دستِ دعا اُٹّھا


میزان پہ آقا نے فرمایا کرم ایسا

ہر دفترِ عصیاں سے فرمانِ سزا اُٹّھا


اک ماں کے قدم چومے، بیٹے کو دیا پانی

اس طرح ترا رتبہ اے کوہ صفا اُٹّھا


ہر زخم ہوا اچھا لگتے ہی لعاب ان کا

مردوں میں بھی جاں پھونکی جب دست شفا اُٹّھا


وہ قلب کہ جس میں بس رحمت کا خزانہ تھا

وہ بات کہ جب اٹّھا بس لے کے دعا اُٹّھا


الفاظ و معانی کے گلزار مہک اٹّھے

جب نعت کے میداں میں وہ کلکِ رضا اُٹّھا


ہر لب پہ سبحان اللہ تسبیح ہوئی جاری

حسنین سرِ محفل جب بہرِ ثنا اُٹّھا


تم عشق کے بندے ہو بس نعت کہے جاؤ

کیا فکر تمھیں نظمی کیا بیٹھا ہے کیا اُٹّھا