جانا جو مدینے بادِ صبا پیشِ محبوب خدا جانا
رکھنا مری طرح آنکھیں نم پڑھتے ہوئے صلِّ علیٰ جانا
رکھنا دلِ پژمردہ کو میرے چوکھٹ پہ حضور والا کی
کہنا کہ ہوا سے دامن کی اس پھول کو مہکا جانا
تدبیر تو کوئی سوچ صبا اس در پہ ہمیں لے جانے کی
تیرا تو ہزاروں سال سے ہے طیبہ کی طرف آنا جانا
یہ چہل پہل ہر دم رونق فیضان ِعشقِ محمد ہے
میلہ سا لگا ہے پلکوں پر اشکوں کا سدا آنا جانا
آئی یہ صدا اک گوشہ سے مداحِ نبی ہے جانے دو
کام آئی سند جب رضواں نے مجھ کو بھی اسی در کا جانا
جز داغ ندارد بر دامن اے محرم راز و نیازِ من
مورے بر سونیر بھرے نینن ، عصیاں کے داغ مٹا جانا
سرِ خامہ نگوں افکارِ زبوں،ایں راہِ رِضا دشوار فزوں
تقلیدِ رضا کی میں نے یوں،اعزاز اسے اپنا جانا
مقصود خدا خواہی ہے اگر مانگ ان کا کرم رکھ ان پہ نظر
اسی راہِ طریقت سے ہٹ کر، ممکن نہیں رستہ پاجا نا
محشر کا ادیبؔ نہیں ہے غم ، مداحِ نبی ہیں کیا ہے یہ کم
حسّان ہیں آگے، پیچھے ہم جس روز ہے پیشِ خدا جانا