جذبۂ حسرتِ دیدار جو تڑپاتا ہے
اپنی کوتاہ نگاہی کا خیال آتا ہے
جب بھی آجاتا ہے سہواً کبھی جنّت کا خیال
تیرا مسکن ترا در سَامنے آجاتا ہے
حق نے جس شہر کے ذرّوں کی قَسَم کھائی ہو
واں اُبھرتے ہُوئے خورشید بھی شرماتا ہے
دیکھ کر وسعتِ دامانِ کَرم حشر کے دن
میرا دامانِ طَلَب آپ ہی شرماتا ہے
کوئی روتا ہے تو بھر آتی ہیں آنکھیں میری
میں سمجھتا ہُوں مدینہ اِسے یاد آتا ہے
نعت کا رنگ جو بدلا تو میں سمجھا اعظؔم
پہلے میں کہتا تھا اب کوئی کہلواتا ہے