جس نے بھی ہوا خیر سے کھائی تِرے در کی
خوشبو کہے "مانگت ہوں میں بھائی تِرے در کی"
زخمِ دلِ بے چین پہ تسکین کی خاطر
مرہم کی طرح خاک لگائی تِرے در کی
عیسٰی کی ہے معراج کہ تسمے تِرے باندھے
کب خاک اٹھائیں گے عیسائی تِرے در کی ؟
اُس رات ستاروں کو بھی ہمراز سا پایا
جس رات مجھے یاد ستائی ترے در کی
یہ در بدری اُس کے مقدّر میں رقم ہے
کی جس نے ذرا سی بھی بُرائی ترے در کی
اُس لطف کی شاہانِ زمانہ کو خبر کیا
جِس لطف میں رکھتی ہے گدائی ترے در کی
عُشّاق کی پُر ذوق طبیعت کے سبب سے
جنّت بھی ادا دیکھنے آئی ترے در کی
کچھ اور سُجھائی نہ دیا مجھ کو تبسم
دی حشر کے میداں میں دُہائی ترے در کی