جو داغِ عشق شہ دیں ہیں دل پہ کھائے ہوئے
وہ گویا خلدِ بریں کی سند ہیں پائے ہوئے
تمہارے دَر کے گداؤں کے واسطے یا شاہ
بہشت لائے ہیں رِضواں دلہن بنائے ہوئے
اُٹھا کے آنکھ نہ دیکھے وہ حور و غلماں کو
نظر میں جس کی ہیں ماہِ عرب سمائے ہوئے
ہے عاشقوں کی نظر تیرے رُخ پہ باطن میں
بظاہر اپنا کفن میں ہیں منہ چھپائے ہوئے
ہے ان کے دفن پہ قربان جان عالم کی
جو تیرے ہاتھ سے ہیں قبر میں سلائے ہوئے
ٹھہر ذرا مَلک الموت دیکھ لینے دے
شہِ مَدینہ ہیں بالیں پہ میری آئے ہوئے
اَجل ہے سر پہ کھڑی دیر کر نہ اے غافل
رَہِ مَدینہ کو طے کر قدم بڑھائے ہوئے
نہ جائیں گے کہیں ہل کر اس آستانے سے
کہ ہم ہیں یا شہِ طیبہ ترے ہلائے ہوئے
وہ دن نصیب ہو ہاتھوں میں جالیاں تھامے
کھڑے ہوں ہم تیرے روضے پہ سرجھکائے ہوئے
فرشتے کرتے ہیں یوں زائروں کا اِستقبال
کہ یہ حبیبِ مُکرَّم کے ہیں بلائے ہوئے
کچھ ایک ہم ہی نہیں ہیں دَرِ نبی کے گدا
قمر بھی داغِ غلامی ہے دِل پہ کھائے ہوئے
خدا نے اُن کو کیا سربلند عالم میں
ترے حضور میں آئے جو سر جھکائے ہوئے
فلک پہ عرش پہ جنت میں تیرا اسم شریف
خدا نے نام سے اپنے لکھا ملائے ہوئے
گلاب بلکہ سبھی پھول یَارَسُوْلَ اللہ
تیرے پسینے کی خوشبو میں ہیں بسائے ہوئے
بہشت و خلد ہیں کیا بلکہ کل خزانوں کا
خدا کے گھر سے ہیں وہ اِختیار پائے ہوئے
عجب ہے کیا جو کھلے اُن پہ غیب کے اَسرار
خدا کے ہیں وہ سکھائے ہوئے پڑھائے ہوئے
سنا ہے جب سے کہ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ تَرْضٰی
تمہاری اُمتِ عاصی کے دِل سوائے ہوئے
ترا کرم کہ تو فرمائے اُمتی ہر دم
ہمارا ظلم کہ ہم ہیں تجھے بھلائے ہوئے
زہے نصیب کہ اُمت کی مغفرت کے لیے
وہ ہیں جنابِ الٰہی میں ہاتھ اُٹھائے ہوئے
غلام اُن کے گرفتار کیوں ہوں محشر میں
وہ سب کو دامنِ اَقدس میں ہیں چھپائے ہوئے
اگرچہ نیک عمل کچھ نہیں ہمارے پاس
مگر حضور کا ہیں آسرا لگائے ہوئے
سوا حضور کے کوئی نہیں رفیق اپنا
عزیز جن کو سمجھتے تھے وہ پرائے ہوئے
کچھ اس میں شک نہیں بد ہیں گنہگار ہیں ہم
مگر بدوں کو بھی رکھو شہا نبھائے ہوئے
حضور حشر میں بگڑی گنہگاروں کی
بنے گی کیسے بغیر آپ کے بنائے ہوئے
سفید نامۂ اَعمال کیوں نہ ہوں اُن کے
ترے کرم کی جو بارِش میں ہیں نہائے ہوئے
ندا یہ حشر میں ہوگی کہ دیکھ لیں عشاق
نقاب وہ رُخِ اَنور سے ہیں اُٹھائے ہوئے
ہے منکروں کے لیے روزِ حشر نارِ جحیم
قصورِ خلد غلاموں پہ ہیں لٹائے ہوئے
مَدد کرو کہ تمہارے غلام کے پیچھے
ہے دشمنوں کا ہجوم آستیں چڑھائے ہوئے
جمیلؔ قادری نعت نبی سنائیں گے
خدا کے سامنے جائیں گے جب بلائے ہوئے
جمیلؔ قادری چمکے نہ کیوں کلام ترا
کہ تو جنابِ رضا سے ہے فیض پائے ہوئے