جو اویس ؓ کا ہے معاملہ نہ سہی، اک اُن کی لگن تو ہے
مرے رو برو تو نہیں ہیں وہ، مگر اُن سے رُوئے سخن تو ہے
دِل باشعور ہے منہمک، رُخِ مصطفےٰؐکے خیال میں
مِرا ذہن جس سے دمک اُٹھا، یہی روشنی کی کرن تو ہے
رہِ عشق طے کرو شان سے، سرو چشم سے، دل و جان سے
یہ درِ نبیؐ کی مسافرت ہے، زہے نصیب! کٹھن تو ہے
جو نبیؐ کے در کا گدا ہوا، وہی باخُدا بخدا ہُوا
کوئی بندگی کی ادا تو ہے، کوئی زندگی کا چلن تو ہے
یہ درست ، آج جدا ہُوں مَیں، دل و جاں سے اُس پہ فدا ہُوں مَیں
مِری خاک، میرا خمیر ہے، یہ مدینہ میرا وطن تو ہے
تِرے دَر پہ جھُومتا جاؤں گا، مِرے پاس جو ہے لُٹاؤں گا
نہیں تخت و تاج، تو غم نہیں، مِرا تن تو ہے مِرا من تو ہے
وہ شکیل بھی ہو، وجیہہ بھی، وہ ہو مصطفیٰؐ کی شبیہ بھی
کوئی اِس مقام کا ہو نہ ہو، مگر مِرا جَد، امام ِحسن ؓ تو ہے
یہی نعت ہے جو نصیرؔ کی، وہ صدا ہے اُس کے ضمیر کی
چلو وہ خدائے سخن نہیں، کہو نا خدائے سخن تو ہے
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست